بکھرا بکھرا ہستی کا شیرازہ ہے
دیواروں پر خون ابھی تک تازہ ہے
تم پر کوئی وار نہ ہوگا پیچھے سے
دوست نہیں یہ دشمن کا دروازہ ہے
اک اک کر کے ساری قدریں ٹوٹ گئیں
یہ اپنی خودداری کا خمیازہ ہے
کون کسی کی سنتا ہے اس بستی میں
چیخ تمہاری صحرا کا آوازہ ہے
اندر سے سب قاتل ہیں سب خونی ہیں
چہروں پر اخلاص کا جن کے غازہ ہے
ہمسایہ ہی ہم سایے کو لوٹے گا
رہبرؔ میرا ایسا اب اندازہ ہے
غزل
بکھرا بکھرا ہستی کا شیرازہ ہے
رہبر جونپوری