بکھیروں رنگ خوشبو کو مسل دوں
ملے جو پھول چہرہ نوچ ڈالوں
جواں ہو کر بھی بچوں کی سی عادت
کھلونوں سے ابھی تک کھیلتا ہوں
سمندر میں ہوں موج مضطرب سا
مگر صحراؤں جیسی پیاس رکھوں
وہ مجھ میں ڈھل رہا ہے اور میں اس میں
خود اپنا سا کوئی لہجہ ٹٹولوں
مزاج گل پرستی گدگدائے
شمیم گل پہ اس کا نام لکھوں
غزل
بکھیروں رنگ خوشبو کو مسل دوں
منور عزیز