EN हिंदी
بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے | شیح شیری
bikharti KHak mein koi KHazana DhunDhti hai

غزل

بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے

محمد اجمل نیازی

;

بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے
تھکی ہاری زمیں اپنا زمانہ ڈھونڈھتی ہے

شجر کٹتے چلے جاتے ہیں دل کی بستیوں میں
تری یادوں کی چڑیا آشیانہ ڈھونڈھتی ہے

یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اجڑے لہو میں
یہ ارض بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈھتی ہے

بھٹکتی ہے تجھے ملنے کی خواہش محفلوں میں
یہ خواہش خواہشوں میں آستانہ ڈھونڈھتی ہے

ترے غم کا خمار اترا ادھوری کیفیت میں
یہ کیفیت کوئی موسم پرانا ڈھونڈھتی ہے

بکھرتا ہوں جدائی کی اکیلی وسعتوں میں
یہ ویرانی مرے گھر میں ٹھکانہ ڈھونڈھتی ہے

مری مٹی سجائی جا رہی ہے آنگنوں میں
یہ رستوں پر تڑپنے کا بہانہ ڈھونڈھتی ہے