بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہم سفر جانا
کہ تھا اس راہ میں آخر ہمیں خود بھی بکھر جانا
سر دوش ہوا اک ابر پارے کی طرح ہم ہیں
کسی جھونکے سے پوچھیں گے کہ ہے ہم کو کدھر جانا
دل آوارہ کیا پابند زنجیر تعلق ہو
نہ تھا بس میں کسی کے بھی ہوا کو قید کر جانا
پس ظلمت کوئی سورج ہمارا منتظر ہوگا
اسی اک وہم کو ہم نے چراغ رہگذر جانا
ہمیں تو ساتھ دینا ہے رفیقان تلاطم کا
مبارک تجھ کو تنہا اس ندی کے پار اتر جانا
مرے جلتے ہوئے گھر کی نشانی بس یہی ہوگی
جہاں اس شہر میں کچھ روشنی دیکھو، ٹھہر جانا
سہانے موسموں کی یاد سکھلایا تجھے کس نے
افق پر دیدہ و دل کے دھنک بن کر بکھر جانا
حصار ضبط میں رہ کر مآل حسرت دل کیا
کسی قیدی پرندے کی طرح گھٹ گھٹ کے مر جانا
دیار خامشی سے کوئی رہ رہ کر بلاتا ہے
ہمیں مخمورؔ اک دن ہے اسی آواز پر جانا
غزل
بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہم سفر جانا
مخمور سعیدی