بکھر جائے گی شام آہستہ بولو
تڑک جائیں گے جام آہستہ بولو
نہ دو داغوں کے بھید آہوں کو روکو
نہ لو نالوں کا نام آہستہ بولو
نہ لے تنہائی کی راتوں میں اک دن
خموشی انتقام آہستہ بولو
یہی ہوتے ہیں آداب محبت
کہ جب لو اس کا نام آہستہ بولو
نہ جانے کون بیٹھا ہو کمیں میں
اندھیری ہے یہ شام آہستہ بولو
فغان دل سے کس کا دل پسیجا
یہ ہے سودائے خام آہستہ بولو
ابھی تو راہ میں دیوار و در ہیں
ابھی دو چار گام آہستہ بولو
بہت ہے صدمۂ یک آہ اس کو
ہے نازک یہ نظام آہستہ بولو
ابھی تو بادۂ الفت کا حقیؔ
پیا ہے ایک جام آہستہ بولو
غزل
بکھر جائے گی شام آہستہ بولو
شان الحق حقی