EN हिंदी
بکھر جائے نہ میری داستاں تحریر ہونے تک | شیح شیری
bikhar jae na meri dastan tahrir hone tak

غزل

بکھر جائے نہ میری داستاں تحریر ہونے تک

مینک اوستھی

;

بکھر جائے نہ میری داستاں تحریر ہونے تک
یہ آنکھیں بجھ نہ جائے خواب کی تعبیر ہونے تک

چلائے جا ابھی تیشہ قلم کا کوہ ظلمت پر
سیاہی وقت بھی لیتی ہے جوئے شیر ہونے تک

اسی خاطر مرے اشعار اب تک ڈائری میں ہیں
کسی عالم میں جی لیں گے یہ عالمگیر ہونے تک

ترے آغاز سے پہلے یہاں جگنو چمکتے تھے
یہ بستی مفلسوں کی تھی تری جاگیر ہونے تک

مجھے طنز و ملامت کی بڑی درکار ہے یوں بھی
انا کو شان بھی تو چاہئے شمشیر ہونے تک

محبت آخرش لے آئی ہے اک بند کمرے میں
تیری تصویر اب دیکھوں گا خود تصویر ہونے تک