بکے گی اس کی ہی دستار طے ہے
کہ جس کی قیمت کردار طے ہے
ہوا تھا حادثہ کچھ اور لیکن
لکھے گا اور کچھ اخبار طے ہے
بڑے آنگن پہ اتراؤ نہ اتنا
اٹھے گی اس میں بھی دیوار طے ہے
ہے نا لائق مگر سردار کا ہے
بنے گا بیٹا ہی سردار طے ہے
ہے منصف ہی گرفتار تعصب
عدالت میں ہماری ہار طے ہے
نہ لے جا ہم کو اس محفل میں اے دل
جہاں ہونا ذلیل و خوار طے ہے
ہنر ہے ایسے رشتوں کو نبھانا
جہاں ہر بات پر تکرار طے ہے
سدا سچ بولتے ہو تم بھی اعظمؔ
تمہارے واسطے بھی دار طے ہے
غزل
بکے گی اس کی ہی دستار طے ہے
ڈاکٹر اعظم