بجلیاں پی کے جو اڑ جاتے ہیں
وہ قیامت سے بھی لڑ جاتے ہیں
قلب انساں کی جواں حدت سے
آگ پر آبلے پڑ جاتے ہیں
عشق جب وقت کو جھنجھوڑتا ہے
حادثے کانپ کے جھڑ جاتے ہیں
مقتل زیست سے محشر کی طرف
رقص کرتے ہوئے دھڑ جاتے ہیں
آہ کی زلزلہ اندازی سے
عرش کے پائے اکھڑ جاتے ہیں
ہم وہ انساں ہیں جو بندوں کے لیے
کبریا سے بھی بگڑ جاتے ہیں
غزل
بجلیاں پی کے جو اڑ جاتے ہیں
شیر افضل جعفری