EN हिंदी
بجلیاں پی کے جو اڑ جاتے ہیں | شیح شیری
bijliyan pi ke jo uD jate hain

غزل

بجلیاں پی کے جو اڑ جاتے ہیں

شیر افضل جعفری

;

بجلیاں پی کے جو اڑ جاتے ہیں
وہ قیامت سے بھی لڑ جاتے ہیں

قلب انساں کی جواں حدت سے
آگ پر آبلے پڑ جاتے ہیں

عشق جب وقت کو جھنجھوڑتا ہے
حادثے کانپ کے جھڑ جاتے ہیں

مقتل زیست سے محشر کی طرف
رقص کرتے ہوئے دھڑ جاتے ہیں

آہ کی زلزلہ اندازی سے
عرش کے پائے اکھڑ جاتے ہیں

ہم وہ انساں ہیں جو بندوں کے لیے
کبریا سے بھی بگڑ جاتے ہیں