EN हिंदी
بیتے ہوئے لمحوں کے جو گرویدہ رہے ہیں | شیح شیری
bite hue lamhon ke jo girwida rahe hain

غزل

بیتے ہوئے لمحوں کے جو گرویدہ رہے ہیں

حسن نجمی سکندرپوری

;

بیتے ہوئے لمحوں کے جو گرویدہ رہے ہیں
حالات کے ہاتھوں وہی رنجیدہ رہے ہیں

ان جلووں سے معمور ہے دنیا مرے دل کی
آئینوں کی بستی میں جو نادیدہ رہے ہیں

رندان بلا نوش کا عالم ہے نرالا
ساقی کی عنایت پہ بھی نم دیدہ رہے ہیں

برسوں غم حالات کی دہلیز پہ کچھ لوگ
گل کر کے دئیے ذہنوں کے خوابیدہ رہے ہیں

ہر دور میں انسان نے جیتی ہے یہ بازی
ہر دور میں کچھ مسئلے پیچیدہ رہے ہیں

انسان کی صورت میں کئی رنگ کے پتھر
ہم سینے پہ رکھے ہوئے خوابیدہ رہے ہیں

مجرم کی صفوں میں ہیں وہ مظلوم بھی جن سے
نجمیؔ نے جو کچھ پوچھا تو سنجیدہ رہے ہیں