بیتے برس کی یاد کا پیکر اتار دے
دیوار سے پرانا کلنڈر اتار دے
رکھ دی ہے اس نے کھول کے خود جسم کی کتاب
سادہ ورق پہ لے کوئی منظر اتار دے
بھیگا ہوا لباس بدن بھی جلائے گا
اس سے کہو کہ سر سے وہ گاگر اتار دے
دونوں میں ایک کو تو ملیں سکھ کی ساعتیں
لا اپنا بوجھ بھی مرے سر پر اتار دے
پھر کیا کرو گے ہے تو اسی کا بنا ہوا
کہہ دے اگر وہ لا یہ سوئیٹر اتار دے
یوں جھنجھنا کے ٹوٹتا تارا بکھر گیا
جیسے عروس شب کوئی زیور اتار دے
چاہے ہے جان و مال کی جو خیریت نظرؔ
شہر ہوس سے دور ہی لشکر اتار دے
غزل
بیتے برس کی یاد کا پیکر اتار دے
پریم کمار نظر