بگڑتے بنتے دائرے سوال سوچتے رہے
نہ جانے کس کے تھے وہ خد و خال سوچتے رہے
جو رونما نہیں ہوا وہ مرحلہ ڈرا گیا
ملیں گے کیسے اس سے ماہ و سال سوچتے رہے
ستارہ در ستارہ شام اتری ہوگی لان پر
اکیلے بیٹھے ہم بصد ملال سوچتے رہے
عجیب موڑ سامنے تھے خواب خواب بستیاں
بچھڑ کے باقی عمر کا مآل سوچتے رہے
ملے تھے تم تو ٹوٹ کر ہمیں تھے غیر مطمئن
ہزار فاصلے پس وصال سوچتے رہے
ہمیں یہاں وہ خوش قیاس خوش گماں پرند تھے
خیام ریگ میں جو برشگال سوچتے رہے
غزل
بگڑتے بنتے دائرے سوال سوچتے رہے
مصور سبزواری