بگاڑ میں بھی بناؤ ہے آدمی کے لئے
اجڑ رہا ہوں میں اک تازہ زندگی کے لئے
بدل گئے ہیں زمانے کے ساتھ حسن کے طور
کچھ اور چاہتے اب رسم عاشقی کے لئے
یہ سوچ کر کہ عنایت کیا ہوا ہے ترا
دعا نہ مانگی کبھی درد میں کمی کے لئے
ملاحظہ ہو یہ ایثار پھول ہنس ہنس کر
اجڑ رہا ہے کلی کی شگفتگی کے لئے
گمان تک میں نہ تھیں جبرئیل کے جو کبھی
وہ رفعتیں ہیں یقین آج آدمی کے لئے
پلا کے زہر ہی بیگانۂ دو عالم کو
ترس گیا ہوں میں تھوڑی سی بے خودی کے لئے
کچھ اور تیغ وفا زہر میں بجھائے جا
یہی ہے آب حیات آج زندگی کے لئے
غزل
بگاڑ میں بھی بناؤ ہے آدمی کے لئے
عین سلام