بدعت مسنون ہو گئی ہے
امت مطعون ہو گئی ہے
کیا کہنا تری دعا کا زاہد
گردوں کا ستون ہو گئی ہے
رہنے دو اجل جو گھات میں ہے
مجھ پر مفتون ہو گئی ہے
حسرت کو غبار دل میں ڈھونڈو
زندہ مدفون ہو گئی ہے
وحشت کا تھا نام اول اول
اب تو وہ جنون ہو گئی ہے
واعظ نے بری نظر سے دیکھا
مے شیشے میں خون ہو گئی ہے
عارض کے قرین گلاب کا پھول
ہم رنگ کی دون ہو گئی ہے
بندہ ہوں ترا زبان شیریں
دنیا ممنون ہو گئی ہے
حیدرؔ شب غم میں مرگ ناگاہ
شادی کا شگون ہو گئی ہے

غزل
بدعت مسنون ہو گئی ہے
نظم طبا طبائی