بچھڑیں تو شہر بھر میں کسی کو پتہ نہ ہو
تم کو بھی کچھ ملال ہمیں بھی گلا نہ ہو
مجلس کہ خواب گاہ جہاں بھی نظر ملی
ان کو یہی تھا خوف کوئی دیکھتا نہ ہو
جن حادثوں کی آگ سے دامان دل جلا
ممکن نہیں چراغ سخن بھی جلا نہ ہو
میری غزل میں جیسا ترنم ہے سوز ہے
اکثر ہوا گماں کہ اسی کی صدا نہ ہو
ان سے الگ ہوا تو یہی فکر ہے نعیمؔ
ان کا تپاک و مہر کہیں واقعہ نہ ہو
غزل
بچھڑیں تو شہر بھر میں کسی کو پتہ نہ ہو
حسن نعیم