EN हिंदी
بچھڑے ہیں کب سے قافلۂ رفتگاں سے ہم | شیح شیری
bichhDe hain kab se qafila-e-raftagan se hum

غزل

بچھڑے ہیں کب سے قافلۂ رفتگاں سے ہم

پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

;

بچھڑے ہیں کب سے قافلۂ رفتگاں سے ہم
مل جائیں گے کبھی نہ کبھی کارواں سے ہم

رہ رہ کے پوچھتے ہیں یہی باغباں سے ہم
لے جائیں چار تنکے کہاں آشیاں سے ہم

مجبور کس قدر ہیں دل بد گماں سے ہم
دیکھے کوئی کہ چپ ہیں کھڑے بے زباں سے ہم

اللہ رے عروج تخیل کے حوصلے
چل کر مکاں سے بڑھ گئے کچھ لا مکاں سے ہم

باد خزاں نے رنگ چمن کیا اڑا دیا
آخر کو نکلے خاک بسر بوستاں سے ہم

کس منہ سے ہاتھ اٹھائیں دعائیں ہیں بے اثر
پھر بھی ہے دل میں چھیڑ کریں آسماں سے ہم

وہ مے پلائی ساقی نے ہیں جس سے ہوش غم
جاگیں نہ جاگیں دیکھیے خواب گراں سے ہم

وہ سرزمیں کہاں کہ نہ ہو گردش فلک
ممکن نہیں کہ بچ کے رہیں آسماں سے ہم

آخر جنوں میں مل گئیں دامن کی دھجیاں
لے آئے ان کو وادی وحشت نشاں سے ہم

کم مائیگی میں نازل ہے عجز و نیاز پر
اب کیا اٹھائیں سر کو ترے آستاں سے ہم

کیسی چمک کہاں کی کھٹک اف رے بے حسی
ہیں مست ذوق لذت درد نہاں سے ہم

مجبور دل تھا حکم قضا و قدر سے شوقؔ
اب کیا بتائیں آئے یہاں پھر کہاں سے ہم