بچھڑ کے تجھ سے نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
عجیب طرح کے بس حادثے گزرتے ہیں
زمین چھوڑ نہ پاؤں گا انتظار یہ ہے
وہ آسمان سے دھرتی پہ کب اترتے ہیں
یہ کس نے کھینچ دی سانسوں کی لکشمن ریکھا
کہ جسم جلتا ہے باہر جو پاؤں دھرتے ہیں
یہ چاند تارے زمیں اور آفتاب تمام
طواف کرتے ہیں کس کا طواف کرتے ہیں؟
حیات دیتی ہیں سانسیں بس اک مقام تلک
پھر اس کے بعد تو بس سانس سانس مرتے ہیں
غزل
بچھڑ کے تجھ سے نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
کرشن بہاری نور