بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن
ہیں تیرے خواب کی راتیں ترے خیال کے دن
فراق جاں کا زمانہ گزارنا ہوگا
فغاں سے کم تو نہ ہوں گے یہ ماہ و سال کے دن
ہر اک عمل کا وہ کیا کیا جواز رکھتا ہے
نہ بن پڑے گا جواب ایک بھی، سوال کے دن
عروج بخت مبارک مگر یہ دھیان رہے
انہی دنوں کے تعاقب میں ہیں زوال کے دن
گزر رہے ہیں کچھ اس طرح روز و شب اپنے
کہ جس طرح سے کٹیں شاخ بے نہال کے دن
شکایتیں بھی بہت ہیں حکایتیں بھی بہت
گزر نہ جائیں یوں ہی عہد بے مثال کے دن
وہ زندگی کو نیا موڑ دے گیا محسنؔ
یہی زوال کے دن ہیں مرے کمال کے دن
غزل
بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن
محسنؔ بھوپالی