بچھڑ کے بھی ملا رسوائیوں کا قہر تجھے
چھپا سکا نہ ترے آنسوؤں کا شہر تجھے
یہ چڑھتی دھوپ کا ملبوس اتار دے سر شام
اترتی دھوپ میں اب دیکھتا ہے شہر تجھے
ہر ایک سیل صدا کو تو کر گیا پایاب
ڈبو سکی نہ مری چاہتوں کی نہر تجھے
بکھرتی کرنوں کو آنگن میں تھامنے والے
مہ تمام کا پینا پڑے گا زہر تجھے
تو چھوڑ آیا جسے ڈوبتے جزیرے میں
دکھائی دے گا وہی چہرہ لہر لہر تجھے
بدن کو توڑ کے باہر نکل بھی آ کسی شب
حصار جسم میں جینے نہ دے گا دہر تجھے
مصورؔ اس کا مداوا بھی تو نے کچھ سوچا
وہ روگ جو لیے پھرتا ہے شہر شہر تجھے
غزل
بچھڑ کے بھی ملا رسوائیوں کا قہر تجھے
مصور سبزواری