بچھڑ کر ان سے یوں غم میں گزاری زندگی ہم نے
سحر تاریک دیکھی سرخ پائی چاندنی ہم نے
ہمیں دعویٰ نہیں تنہا نباہی دوستی ہم نے
محبت کو سنبھالا ہے کبھی تم نے کبھی ہم نے
خوشی غم میں نظر آئی خوشی میں غم نظر آیا
ابھی دنیا پہ ڈالی تھی نگاہ سرسری ہم نے
بڑی بے چارگی نکلی بہت ہی نارسی پائی
ازل کے روز بڑھ کر لے تو لی تھی بندگی ہم نے
جہاں ساز محبت پر مغنی گا نہیں سکتا
وہاں نغمہ الاپا ہے کبھی تم نے کبھی ہم نے
تمہیں ہو گے نگاہ شوق کا مرکز تمہیں ہو گے
اگر اس زندگی کے بعد پائی زندگی ہم نے
ہمارے سامنے ہر وقت انجام شکایت تھی
کہی کو ان کہی کر دی سنی کو ان سنی ہم نے
بھرے گی اس میں رنگ احسانؔ دنیا انقلابوں سے
لہو سے اپنے اک تصویر ایسی کھینچ دیں ہم نے
غزل
بچھڑ کر ان سے یوں غم میں گزاری زندگی ہم نے
احسان دانش