EN हिंदी
بچھڑ گیا تھا کوئی خواب دل نشیں مجھ سے | شیح شیری
bichhaD gaya tha koi KHwab-e-dil-nashin mujhse

غزل

بچھڑ گیا تھا کوئی خواب دل نشیں مجھ سے

شاہد ذکی

;

بچھڑ گیا تھا کوئی خواب دل نشیں مجھ سے
بہت دنوں مری آنکھیں جدا رہیں مجھ سے

میں سانس تک نہیں لیتا پرائی خوشبو میں
جھجھک رہی ہے یوں ہی شاخ یاسمیں مجھ سے

مرے گناہ کی مجھ کو سزا نہیں دیتا
مرا خدا کہیں ناراض تو نہیں مجھ سے

یہ شاہکار کسی ضد کا شاخسانہ ہے
الجھ رہا تھا بہت نقش اولیں مجھ سے

میں تخت پر ہوں مگر یوں تو خاک زادہ ہی
گریز کرتے ہیں کیوں بوریا نشیں مجھ سے

اجڑ اجڑ کے بسے ہیں مرے در و دیوار
بچھڑ بچھڑ کے ملے ہیں مرے مکیں مجھ سے

بکھر رہی ہے تپ انتقام سے مری خاک
گزر رہی ہے کوئی موج آتشیں مجھ سے

محال ہے کہ تماشا تمام ہو شاہدؔ
تماش بین سے میں خوش تماش بیں مجھ سے