بچھڑ گیا ہے تو اب اس سے کچھ گلا بھی نہیں
کہ سچ تو یہ ہے وہ اک شخص میرا تھا بھی نہیں
میں چاہتا ہوں اسے اور چاہنے کے سوا
مرے لیے تو کوئی اور راستا بھی نہیں
عجیب راہ گزر تھی کہ جس پہ چلتے ہوئے
قدم رکے بھی نہیں راستا کٹا بھی نہیں
دھواں سا کچھ تو میاں برف سے بھی اٹھتا ہے
سو دل جلوں کا یہ ایسا کوئی پتا بھی نہیں
رگوں میں جمتے ہوئے خون کی طرح ہے سعودؔ
وہ حرف ہجر جو اس نے ابھی کہا بھی نہیں
غزل
بچھڑ گیا ہے تو اب اس سے کچھ گلا بھی نہیں
سعود عثمانی