بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں
سفر میں جیسے کوئی اپنے ساتھ تھا ہی نہیں
کسی سے ربط بڑھائیں تو مت خفا ہونا
کہ دل میں اب تری یادوں کا سلسلہ ہی نہیں
سب اپنے اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں
کسی کا جیسے زمانے میں اب خدا ہی نہیں
اک عمر کٹ گئی کاغذ سیاہ کرتے ہوئے
قلم کو اپنے جو لکھنا تھا وہ لکھا ہی نہیں
قمرؔ وہ شخص ہمارے نگر میں کیا آیا
بتوں کو بھی ہے گلہ کوئی پوجتا ہی نہیں

غزل
بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں
قمر اقبال