EN हिंदी
بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں | شیح شیری
bichhaD gaya hai kahan kaun kuchh pata hi nahin

غزل

بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں

قمر اقبال

;

بچھڑ گیا ہے کہاں کون کچھ پتہ ہی نہیں
سفر میں جیسے کوئی اپنے ساتھ تھا ہی نہیں

کسی سے ربط بڑھائیں تو مت خفا ہونا
کہ دل میں اب تری یادوں کا سلسلہ ہی نہیں

سب اپنے اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں
کسی کا جیسے زمانے میں اب خدا ہی نہیں

اک عمر کٹ گئی کاغذ سیاہ کرتے ہوئے
قلم کو اپنے جو لکھنا تھا وہ لکھا ہی نہیں

قمرؔ وہ شخص ہمارے نگر میں کیا آیا
بتوں کو بھی ہے گلہ کوئی پوجتا ہی نہیں