EN हिंदी
بھولنا چاہتا کہاں ہوں میں | شیح شیری
bhulna chahta kahan hun main

غزل

بھولنا چاہتا کہاں ہوں میں

مدھوکر جھا خوددار

;

بھولنا چاہتا کہاں ہوں میں
درد ہے اور بس رواں ہوں میں

آج کچھ یاد آ رہی ہو یوں
تم زمیں اور آسماں ہوں میں

کیا ہوا جو حساب مانگا ہے
کیا غموں کی کوئی دکاں ہوں میں

روشنی کچھ چراغ کی لاؤ
جس جگہ دفن ہوں نہاں ہوں میں

دن دکھائے زمانے نے ایسے
اب نہیں میر کارواں ہوں میں

سادگی ہے ادا میں اس کی جو
عشق میں یار رائیگاں ہوں میں

ذات خوددارؔ کی دکھی جب جب
شاعری کا حسیں سماں ہوں میں