بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں
ٹوٹا جال سمندر پر پھیلائے ہوئے ہوں
وحشت کرنے سے بھی دل بیزار ہوا ہے
دشت و سمندر آنچل میں سمٹائے ہوئے ہوں
وہ خوشبو بن کر آئے تو بے شک آئے
میں بھی دست صبا سے ہاتھ ملائے ہوئے ہوں
ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے کچھ رنگ گھلے تھے
ان کی مہندی آج تلک بھی رچائے ہوئے ہوں
جن باتوں کو سننا تک بار خاطر تھا
آج انہیں باتوں سے دل بہلائے ہوئے ہوں
غزل
بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں
زہرا نگاہ