بھولے سے کبھی میری جانب جب ان کی نظر ہو جاتی ہے
ہنگامے بپا ہو جاتے ہیں عالم کو خبر ہو جاتی ہے
میری شب فرقت کی ظلمت مرہون تجلی ہو نہ سکی
ہوگی وہ کسی کے وصل کی شب جس شب کی سحر ہو جاتی ہے
کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں کاٹے سے نہیں جو کٹتے ہیں
کچھ ایسی بھی راتیں آتی ہیں باتوں میں سحر ہو جاتی ہے
شمشاد کھڑا منہ تکتا ہے حیرانیٔ نرگس کیا کہئے
گلزار میں جب وہ آتا ہے اس گل کو نظر ہو جاتی ہے
اعجاز تجلی تو دیکھو وہ سامنے جب آ جاتے ہیں
بیتابیٔ دل بڑھ جاتی ہے تسکین جگر ہو جاتی ہے
میخانے میں سب کچھ ملتا ہے یہ شیخ و برہمن کیا جانیں
یوں دیر و حرم کے جھگڑوں میں اک عمر بسر ہو جاتی ہے
وہ شوق بھری نظریں اٹھ کر اک حشر بپا کر دیتی ہیں
دنیائے محبت کی ہر شے تب زیر و زبر ہو جاتی ہے
جب شوق کی آنکھوں میں رقصاں کونین کے جلوے ہوتے ہیں
منزل وہیں خود کھنچ آتی ہے تکمیل سفر ہو جاتی ہے

غزل
بھولے سے کبھی میری جانب جب ان کی نظر ہو جاتی ہے
شوق بجنوری