EN हिंदी
بھولے سے بھی لب پر سخن اپنا نہیں آتا | شیح شیری
bhule se bhi lab par suKHan apna nahin aata

غزل

بھولے سے بھی لب پر سخن اپنا نہیں آتا

آنند نرائن ملا

;

بھولے سے بھی لب پر سخن اپنا نہیں آتا
ہاں ہاں مجھے دنیا میں پنپنا نہیں آتا

دل کو سر الفت بھی ہے رسوائی کا ڈر بھی
اس کو ابھی اس آنچ میں تپنا نہیں آتا

یہ اشک مسلسل ہیں محض اشک مسلسل
ہاں نام تمہارا مجھے جپنا نہیں آتا

تم اپنے کلیجہ پہ ذرا ہاتھ تو رکھو
کیوں اب بھی کہوگے کہ تڑپنا نہیں آتا

مے خانہ میں کچھ پی چکے کچھ جام بکف ہیں
ساغر نہیں آتا ہے تو اپنا نہیں آتا

زاہد سے خطاؤں میں تو نکلوں گا نہ کچھ کم
ہاں مجھ کو خطاؤں پہ پنپنا نہیں آتا

بھولے تھے انہیں کے لیے دنیا کو کبھی ہم
اب یاد جنہیں نام بھی اپنا نہیں آتا

دکھ جاتا ہے جب دل تو ابل پڑتے ہیں آنسو
ملاؔ کو دکھانے کا تڑپنا نہیں آتا