EN हिंदी
بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت | شیح شیری
bhule hue hain sab ki hai kar-e-jahan bahut

غزل

بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت

آصف جمال

;

بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت
لیکن وہ ایک یاد ہے دل پر گراں بہت

کچھ رفتگاں کے غم نے بھی رکھا ہمیں نڈھال
کچھ صدمہ ہائے نو سے رہے نیم جاں بہت

ہم کو نہ زلف یار نہ دیوار سے غرض
ہم کو تو یاد یار کی پرچھائیاں بہت

وہ سرد مہریاں کہ ہمیں راکھ کر گئیں
سنتے ہیں پہلے ہم بھی تھے آتش بجاں بہت

اک موج فتنہ سر کہ رواں ہر نفس میں ہے
ہر دم یقیں سے پہلے اٹھے ہیں گماں بہت

اب کے جنوں میں موج صبا کا بھی ہاتھ ہے
موج صبا کہ اب کے اٹھی سرگراں بہت

اب یہ خبر نہیں وہ سمندر ہے یا سراب
اپنے یہاں ہے تشنگیٔ جسم و جاں بہت

صحرا سے ورنہ اپنا علاقہ نہیں ہے کچھ
آشفتگیٔ سر کی ہوا ہے یہاں بہت