بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں
مستی میں نہیں غافل ہشیار اسے کہتے ہیں
گیسو اسے کہتے ہیں رخسار اسے کہتے ہیں
سنبل اسے کہتے ہیں گلزار اسے کہتے ہیں
اک رشتۂ الفت میں گردن ہے ہزاروں کی
تسبیح اسے کہتے ہیں زنار اسے کہتے ہیں
محشر کا کیا وعدہ یاں شکل نہ دکھلائی
اقرار اسے کہتے ہیں انکار اسے کہتے ہیں
ٹکراتا ہوں سر اپنا کیا کیا در جاناں سے
جنبش بھی نہیں کرتی دیوار اسے کہتے ہیں
دل نے شب فرقت میں کیا ساتھ دیا میرا
مونس اسے کہتے ہیں غم خوار اسے کہتے ہیں
خاموش امانتؔ ہے کچھ اف بھی نہیں کرتا
کیا کیا نہیں اے پیارے اغیار اسے کہتے ہیں
غزل
بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں
امانت لکھنوی