بھولا بسرا خواب ہوئے ہم
کچھ ایسے نایاب ہوئے ہم
دریا بن کر سوکھ گئے تھے
قطرے سے سیراب ہوئے ہم
جانے کس منظر سے گزرے
پل بھر میں برفاب ہوئے ہم
خود اپنی ہی گہرائی میں
آخر کو غرقاب ہوئے ہم
خوابوں کی تعبیر بھی دیکھیں
اتنے کب خوش خواب ہوئے ہم
بات زباں پر لا کر سیفیؔ
بے وقعت بے آب ہوئے ہم

غزل
بھولا بسرا خواب ہوئے ہم
بشیر سیفی