بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
شکل نمایاں ہوگی سحر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
آنکھیں ملتے صحن چمن میں جھوم کے اٹھے نیند کے ماتے
دیکھ صبا نے آ کے خبر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
نیلے نیلے رنگ کے اوپر بڑھتی ہی جاتی ہے سفیدی
ہو گئی رنگت زر و قمر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
زور نہ طاقت سنگ نہ ساتھی پاؤں سے اپنے آپ ہے چلنا
تجھ پہ ہے بھاری راہ سفر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
تجھ پہ میں قرباں جانی پیارے ہم نفس و ہم درد ہمارے
تجھ سے ہے الفت میں نے خبر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
پنکھ پکھیرو خواب سے چونکے سب نے خوشی کے نعرے مارے
آئی صدا مرغان سحر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
کوچ کی ساعت آ گئی سر پر شادؔ اٹھا لے جھولی بستر
نیند میں ساری رات بسر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
غزل
بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
شاد عظیم آبادی