بھوکی ہے زمیں بھوک اگلتی ہی رہے گی
یہ بھوک مرے پیٹ میں پلتی ہی رہے گی
جیون بھی مرا دشت ہے مسکن بھی مرا دشت
ہونٹوں پہ مرے پیاس مچلتی ہی رہے گی
دل میں نہیں اب پاس رہا چین سکوں کا
اک آگ سی دل میں ہے ابلتی ہی رہے گی
ہستی کے اجڑنے کا بھلا دکھ مجھے کیوں ہو
یہ ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھلتی ہی رہے گی
چہرے نئے انداز نئے طور نئے ہیں
دنیا ہے یہ سو رنگ بدلتی ہی رہے گی
مذکور کریں کیا دل مجبور کا ناقدؔ
اک ہوک ہے سینے سے نکلتی ہی رہے گی
غزل
بھوکی ہے زمیں بھوک اگلتی ہی رہے گی
شبیر ناقد