EN हिंदी
بھوک سے بچے بلکتے ہیں نہ جانے کتنے | شیح شیری
bhuk se bachche bilakte hain na jaane kitne

غزل

بھوک سے بچے بلکتے ہیں نہ جانے کتنے

خلش کلکتوی

;

بھوک سے بچے بلکتے ہیں نہ جانے کتنے
اور پانی میں بہا دیتے ہیں دانے کتنے

اک تمنا کا ہوا خون تو کیا غم اے دوست
دفن ہیں سینے میں ارمان نہ جانے کتنے

کبھی اوروں کی کبھی اپنی حماقت کے طفیل
ہاتھ آتے رہے ہنسنے کے بہانے کتنے

زندگی ایک حقیقت بھی ہے افسانہ بھی
ہر گلی کوچے میں بکھرے ہیں فسانے کتنے

اک گل تازہ کی تخلیق میں اے گلچینو
جانے قدرت نے لٹائے ہیں خزانے کتنے

میری روداد کو سب اپنا فسانہ سمجھے
اک فسانے میں ہیں پوشیدہ فسانے کتنے

حوصلہ بخشا ہے جینے کا انہی خوابوں نے
ہم نے دیکھے ہیں خلشؔ خواب سہانے کتنے