EN हिंदी
بھلاتا ہوں مگر غم کی درخشانی نہیں جاتی | شیح شیری
bhulata hun magar gham ki daraKHshani nahin jati

غزل

بھلاتا ہوں مگر غم کی درخشانی نہیں جاتی

نشور واحدی

;

بھلاتا ہوں مگر غم کی درخشانی نہیں جاتی
وہ آئینہ مقابل ہے کہ حیرانی نہیں جاتی

نگاہ شوق سے تا دیر حیرانی نہیں جاتی
شباب آیا تو ظالم شکل پہچانی نہیں جاتی

تجھے دیکھوں کہ تیرے التفات نرم کو سمجھوں
محبت بھی ترے جلووں میں پہچانی نہیں جاتی

سحاب و سیل دھو سکتے نہیں گرد فلاکت کو
بہار آئی مگر دنیا کی ویرانی نہیں جاتی

کہاں تک ساتھ دے سکتی ہیں آنکھیں سوزش دل کا
بہت رویا مگر غم کی گراں جانی نہیں جاتی

جوانی کو گناہوں سے الگ کرنا نہیں ممکن
یہ وہ مے ہے جو فرط کیف سے چھانی نہیں جاتی

محبت تار تار پیرہن کر اپنے کانٹوں سے
کہ ان پھولوں سے میری تنگ دامانی نہیں جاتی

نشورؔ اس وقت بھی دنیا اسیر ملک و دولت ہے
ابھی فکر و نظر تا حد انسانی نہیں جاتی