EN हिंदी
بھلانے کے لیے راضی تجھے یہ دل نہیں ہوتا | شیح شیری
bhulane ke liye raazi tujhe ye dil nahin hota

غزل

بھلانے کے لیے راضی تجھے یہ دل نہیں ہوتا

سنتوش کھروڑکر

;

بھلانے کے لیے راضی تجھے یہ دل نہیں ہوتا
تبھی تو یاد سے تیری کبھی غافل نہیں ہوتا

محبت کو ابھی تک میں نے اپنی راز رکھا ہے
تمہارا ذکر یوں مجھ سے سارے محفل نہیں ہوتا

تجھے ہی ڈھونڈھتا رہتا میں اپنے آپ میں ہر دم
صنم تو میرے جیون میں اگر شامل نہیں ہوتا

دغا دینا ہی عادت بن گئی ہو جس کی اے یارو
بھروسے کے کبھی وہ آدمی قابل نہیں ہوتا

ہمیشہ بیج بوتا ہے جو نفرت کے زمانے میں
اسے سنتوشؔ جیون میں کبھی حاصل نہیں ہوتا