بھگت رہا ہوں خود اپنے کئے کا خمیازہ
ٹپک رہا ہے جو آنکھوں سے یہ لہو تازہ
کسی کی یاد کے سائے کو ہم سفر سمجھا
لگا سکو تو لگا لو جنوں کا اندازہ
کسے مجال کہ اب میرے دل میں گھر کر لے
ہے گرچہ اب بھی کھلا اپنے دل کا دروازہ
نگار وقت نے ہر سو کمند ڈالی ہے
بکھر نہ جائے کہیں انجمن کا شیرازہ
خدا گواہ ہے ان کو بھی دے رہا ہوں دعا
جو کستے رہتے ہیں شاکرؔ پہ روز آوازہ
غزل
بھگت رہا ہوں خود اپنے کئے کا خمیازہ
شاکر خلیق