EN हिंदी
بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے | شیح شیری
bhiD mein koi shanasa bhi nahin chhoDti hai

غزل

بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے

معراج فیض آبادی

;

بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے
زندگی مجھ کو اکیلا بھی نہیں چھوڑتی ہے

عافیت کا کوئی گوشہ بھی نہیں چھوڑتی ہے
اور دنیا مرا رستہ بھی نہیں چھوڑتی ہے

مجھ کو رسوا بھی بہت کرتی ہے شہرت کی ہوس
اور شہرت مرا پیچھا بھی نہیں چھوڑتی ہے

ہم کو دو گھونٹ کی خیرات ہی دے دو ورنہ
پیاس پاگل ہو تو دریا بھی نہیں چھوڑتی ہے

آبرو کے لیے روتی ہے بہت پچھلے پہر
ایک عورت کہ جو پیشہ بھی نہیں چھوڑتی ہے

ڈوبنے والے کے ہاتھوں میں یہ پاگل دنیا
ایک ٹوٹا ہوا تنکا بھی نہیں چھوڑتی ہے

اب کے جب گاؤں سے لوٹے تو یہ احساس ہوا
دشمنی خون کا رشتہ بھی نہیں چھوڑتی ہے

کیا مکمل ہے جدائی کہ بچھڑ جانے کے بعد
تجھ سے ملنے کا بہانا بھی نہیں چھوڑتی ہے

جانتے سب تھے کہ نفرت کی یہ کالی آندھی
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہیں چھوڑتی ہے