بھیجتا ہوں ہر روز میں جس کو خواب کوئی ان دیکھا سا
اس کی آنکھیں ساری خوشبو اس کا بدن آئینا سا
اس نے بس اتنا ہی پوچھا سبز چنار اب کتنے ہیں
سر سے پا تک لرز اٹھا میں دل پہ گرا اک شعلہ سا
چٹانوں کے سینے پر بھی کھل کر جو مسکاتا ہے
سر مستی کا سرچشمہ ہے وہ اک پودا ننھا سا
لوگو لب کھولو کچھ بولو جہلم ہے مٹیالا کیوں
میں نے جب اس کو دیکھا تھا یہ تھا اک آئینا سا
برف شگوفوں کے موسم میں کاش اک بار آ جاتے تم
میرے خطوں کی خوشبوؤں کا ہوتا کچھ اندازا سا
پھر بھی اے منظورؔ کسی پر ہاتھ نہ اب تک اٹھا میرا
لڑنے کا فن سیکھ لیا ہے گو میں نے بھی تھوڑا سا
غزل
بھیجتا ہوں ہر روز میں جس کو خواب کوئی ان دیکھا سا
حکیم منظور