بھید دنیا کے کھولتا ہوں میں
سب سنیں اب کہ بولتا ہوں میں
آسماں ایک جست تازہ دمی
دھوپ بھر پر ٹٹولتا ہوں میں
حرف مصرف ہے لمحۂ گزراں
شعلۂ کن ٹٹولتا ہوں میں
وسعت وجد ہے مری پہچان
رنگ ہر شے میں گھولتا ہوں میں
صد شفق سمت لمحۂ سیال
بیچ میں خود کو تولتا ہوں میں
گوہر آب دار ہو کے بھی طورؔ
خود کو مٹی میں رولتا ہوں میں

غزل
بھید دنیا کے کھولتا ہوں میں
کرشن کمار طورؔ