EN हिंदी
بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا | شیح شیری
bhauwen chaDhi hain aur hai tewar jhuka hua

غزل

بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا

مرزا اظفری

;

بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
کچھ آج بولتا ہے وہ ہم سے رکا ہوا

جو چاہتا ہے دل کو مرے دل دہی کرے
سودا یہ ہے قدیم سے یوں ہی چکا ہوا

اوسوں گئی ہے پیاس کہیں دیدۂ نمیں
بجھتا ہے آنسوؤں سے کہاں دل پھنکا ہوا

ایوب صابر اور وو کنعاں کے پیر سے
میرے سے زور و شور کا صبر و بکا ہوا

ان چتونوں چرائے دبے پاؤں اظفریؔ
دیکھو کدھر چلا ہے چھپا اور لُکا ہوا