بھٹک رہی ہے روح کے اندر لذت سوکھی گیلی سی
جیسے رستہ بھول گئی ہو ایک ندی پتھریلی سی
میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے
میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی
دیکھوں کیسی فصل اگاتا ہے موسم تنہائی کا
درد کے بیج کی نسل ہے اونچی دل کی مٹی گیلی سی
دروازے پر منہ لٹکائے قلت رنگ و روغن کی
آنگن آنگن جشن منائے خواہش نیلی پیلی سی
مجھ کو بانٹ کے رکھ دیتی ہے دھوپ چھانو کے خیموں میں
کچھ بے غیرت سی مصروفی کچھ فرصت شرمیلی سی
دن بھر کی جاں سوز تھکن کا اجر چکانے کو خورشیدؔ
شام کے پربت پر بیٹھی ہے اک ساعت نوکیلی سی
غزل
بھٹک رہی ہے روح کے اندر لذت سوکھی گیلی سی
خورشید اکبر