EN हिंदी
بھٹک رہا ہوں کہ گر کر سنبھل رہا ہوں میں | شیح شیری
bhaTak raha hun ki gir kar sambhal raha hun main

غزل

بھٹک رہا ہوں کہ گر کر سنبھل رہا ہوں میں

خلیل راضی

;

بھٹک رہا ہوں کہ گر کر سنبھل رہا ہوں میں
کسی طرح سے تو رستے پہ چل رہا ہوں میں

نوازشات کی حد سے نکل رہا ہوں میں
ہٹا لے ہاتھ کہ کروٹ بدل رہا ہوں میں

جنوں میں عقل کی سوداگری بھی کی میں نے
نگاہ ناز سے دنیا بدل رہا ہوں میں

ہوائے غم سے گھرا ہے چراغ ہستی کا
سنبھالنا کہ ترے پاس جل رہا ہوں میں

کسی بھی سانچے میں قسمت نہ ڈھل سکی اب تک
ہزار سوز تپش سے پگھل رہا ہوں میں

وہ آ چلے وہ ابھی آئے دیکھ لو رازیؔ
ذرا سی دیر ہے رک جاؤ چل رہا ہوں میں