بھٹک کے راہ سے ہم سب کو آزما آئے
فریب دے گئے جتنے بھی رہنما آئے
ہم ان کو حال دل زار بھی سنا آئے
کمال جرات اظہار بھی دکھا آئے
کریں تو کس سے کریں ذکر خانہ ویرانی
کہ ہم تو آگ نشیمن کو خود لگا آئے
خیال وصل میں رہتے ہیں رات بھر بیدار
تمہارے ہجر کے ماروں کو نیند کیا آئے
رہین عیش و طرب ہیں جو روز و شب ان کو
پسند کیسے مرے غم کا ماجرا آئے
کبھی ہمیں بھی میسر ہو روٹھنا ان سے
کبھی ہمارے بھی دل میں یہ حوصلہ آئے
ہر اک سے پوچھتے ہیں حال کرشن موہنؔ کا
جسے ادائے ستم سے وہ خود مٹا آئے
غزل
بھٹک کے راہ سے ہم سب کو آزما آئے
کرشن موہن