بھٹک جائے گا دل عیاریٔ ادراک سے نکلیں
یہ زنجیر گراں توڑیں ہم اس پیچاک سے نکلیں
نہ موت آئے جسے ایسا کوئی کردار ہو اپنا
کہانی بن کے ایسی دیدۂ نمناک سے نکلیں
یہی پرچم نشان لشکر باطل نہ بن جائے
ہم اک خنجر سہی لیکن کف سفاک سے نکلیں
صبا بن کر ابھی کرنے ہیں طے کتنے سفر ہم کو
ہم اس مٹی کی خوشبو ہیں طلسم چاک سے نکلیں
ہماری ہمرہی تک ہیں ستارے ہوں کہ گل بوٹے
زمیں پر یہ اگیں یا پردۂ افلاک سے نکلیں
سر صحرا ابھی رقص غبار قیس باقی ہے
ابھی کچھ اور لیلائیں حریم خاک سے نکلیں
جناب رمزؔ بے مصرف رفاقت کا جنوں کب تک
سواد گل میں آپ آئیں خس و خاشاک سے نکلیں
غزل
بھٹک جائے گا دل عیاریٔ ادراک سے نکلیں
محمد احمد رمز