بھری بہار میں دامن دریدہ ہیں ہم لوگ
ہمیں تھا زعم بہار آفریدہ ہیں ہم لوگ
یہ اور بات کہ دامن دریدہ ہیں ہم لوگ
بہ فیض عشق مگر سر کشیدہ ہیں ہم لوگ
ہم آئینہ ہیں مگر عکس ذات سے محروم
تری صدا ہیں مگر ناشنیدہ ہیں ہم لوگ
جہاں جہاں بھی گئے ہیں مہک اٹھی ہے فضا
ترے فراق کی بوئے رسیدہ ہیں ہم لوگ
کڑی ہے دھوپ شجر ہے نہ سایۂ دیوار
بچھڑ کے اس سے سکوں نا چشیدہ ہیں ہم لوگ
یہ کس نے آئنہ سازی کا فن کیا ایجاد
یہ آئنے ہیں کہ چہرہ بریدہ ہیں ہم لوگ
غزل
بھری بہار میں دامن دریدہ ہیں ہم لوگ
راز مراد آبادی