بھرے پرے سے مکاں میں بھی شاہؔ تنہا ہے
ردائے شب کے کنارے پہ ایک تارا ہے
بس ایک لمحہ تھا حائل تجھے بھلانے میں
یہ کس مقام پہ تیرا خیال آیا ہے
تمام گرد ہے چہرہ تھکی تھکی آنکھیں
اداسیوں کا یہ بادل بہت گھنیرا ہے
شب سیہ میں ہے تیری ہی یاد کا لپکا
نگاہ ٹھوکریں کھاتی ہے گھپ اندھیرا ہے
نظر کی راہ میں بے منظری سی پھیلا کر
وہ اک ستارہ سر شام ڈوب جاتا ہے
وہ ایک لمحۂ بے اختیار جب میں نے
تجھے چھوا تھا مری انگلیوں میں جلتا ہے
اس ایک وہم نے زندہ رکھا کبھی میری
نظر کا لمس تجھے گدگدانے والا ہے
خدا کو سونپ کے رخصت ہوا تھا تو مجھ سے
مجھے خدا ہی نے اب تک سنبھال رکھا ہے
تو آج سامنے آئے تو کیسے پہچانوں
مری نظر میں تو اب تک وہی سراپا ہے
غزل
بھرے پرے سے مکاں میں بھی شاہؔ تنہا ہے
شاہ حسین نہری