EN हिंदी
بھر پائے جان زار تری دوستی سے ہم | شیح شیری
bhar pae jaan-e-zar teri dosti se hum

غزل

بھر پائے جان زار تری دوستی سے ہم

ناطق گلاوٹھی

;

بھر پائے جان زار تری دوستی سے ہم
جیتے رہے تو اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

ہیں قافلہ کے ساتھ مگر ہے روش جدا
ملتے ہیں سب سے اور نہیں ملتے کسی سے ہم

ذکر شراب ناب پہ واعظ اکھڑ گیا
بولے تھے اچھی بات بھلے آدمی سے ہم

پابند دیر ہو کے بھی بھولے نہیں ہیں گھر
مسجد میں جا نکلتے ہیں چوری چھپی سے ہم

دنیا بدل گئی ہے بدل سے گئے ہیں کچھ
اپنی خوشی بدل کے تمہاری خوشی سے ہم

جاتے کہاں ملا نہ پھر اپنا پتا کہیں
پہنچے تو تھے بھٹک گئے ان کی گلی سے ہم

ناطقؔ ہمی کو دل نے تو کافر بنا دیا
اب کیا کہیں کہ ہار گئے بدعتی سے ہم