EN हिंदी
بھر نہیں پایا ابھی تک زخم کاری ہائے ہائے | شیح شیری
bhar nahin paya abhi tak zaKHm-e-kari hae hae

غزل

بھر نہیں پایا ابھی تک زخم کاری ہائے ہائے

انیس انصاری

;

بھر نہیں پایا ابھی تک زخم کاری ہائے ہائے
دل کو تھامے ہیں لہو پھر بھی ہے جاری ہائے ہائے

درد کا احساس گھٹ جاتا اگر چاہے کوئی
ہو رہی ہے اور الٹے دل فگاری ہائے ہائے

جسم تو پہلے ہی زخمی تھا مگر باقی تھا دل
اب عدو کے ہاتھ میں خنجر ہے بھاری ہائے ہائے

ہجر میں ویسے بھی آتی ہے مصیبت جان پر
پر رقیبوں کی الگ ہے خندہ کاری ہائے ہائے

ریزہ ریزہ کر دیا ظالم نے سارے جسم کو
اڑ رہی ہے خاک پیروں پر ہماری ہائے ہائے

دل گرفتہ ہو کے چپ بیٹھے ہیں شاید اس طرح
رحم آئے دیکھ کر صورت ہماری ہائے ہائے

دست قاتل صید بننے سے نہیں رکتا کبھی
ہے عبث بے چارگی و آہ و زاری ہائے ہائے

جو پرندے اڑ نہیں سکتے اب ان کی خیر ہو
آنے والا ہے اسی جانب شکاری ہائے ہائے

راہ سے پتھر اٹھا کر سوئے ظالم پھینک دے
گر نہیں تیروں کی تجھ میں ضرب کاری ہائے ہائے

ایک قبلہ اک اذاں اور ایک مجلس اک امام
کاش آ جائے سمجھ میں یہ تمہاری ہائے ہائے