بھر گئے زخم تو کیا درد تو اب بھی کوئی ہے
آنکھ روتی ہے تو رونے کا سبب بھی کوئی ہے
پی گئی یہ مری تنہائی مرے دل کا لہو
قطرۂ اشک پہ یہ جشن طرب بھی کوئی ہے
موت سے تلخ ہے شاید تری رحمت کا عذاب
جس کو کہتے ہیں غضب ایسا غضب بھی کوئی ہے
روز گلشن میں یہی پوچھتی پھرتی ہے صبا
تیرے پھولوں میں مرا غنچۂ لب بھی کوئی ہے
اس کے پہلو سے بہت دور مرے دل کے قریب
ایسا لگتا ہے کہ بیٹھا ہوا اب بھی کوئی ہے
جو علامت ہو ترے حلقۂ عشاق کے بیچ
تجھ سے نسبت کے لئے ایسا لقب بھی کوئی ہے
شاہدؔ اس سلسلۂ عشق سے وابستہ ہوں
جس میں خود میرؔ سا اک عالی نسب بھی کوئی ہے
غزل
بھر گئے زخم تو کیا درد تو اب بھی کوئی ہے
شاہد کمال