بھر دیں شباب نے یہ ان آنکھوں میں شوخیاں
تل بھر بھی اب جگہ نہیں ان میں حیا کی ہے
پھینک آئے اس کو جا کے وہ کوئے رقیب میں
مٹی خراب میرے دل مبتلا کی ہے
دیتا ہوں دل خوشی سے مری جان چھوڑیئے
اس کو نہ لیجئے یہ امانت خدا کی ہے
توبہ نہ منہ لگائے گی رندوں کو دخت رز
قالب میں اس کے روح کسی پارسا کی ہے
تیرے حنائی ہاتھ تک ان کو ہے دسترس
اے رشک گل چمن میں یہ قسمت حنا کی ہے
لاکھوں شہید ناز گئے ہیں جہان سے
ملک عدم میں دھوم تمہاری جفا کی ہے
چوٹی کے شعر تو نے کہے اس زمین میں
سچ ہے وسیمؔ تیری طبیعت بلا کی ہے

غزل
بھر دیں شباب نے یہ ان آنکھوں میں شوخیاں (ردیف .. ے)
وسیم خیر آبادی