بھنگ کھاتے ہیں نہ گانجا نہ چرس پیتے ہیں
ہم وہ بھنورے ہیں جو احساس کا رس پیتے ہیں
آپ اس ڈھنگ سے امرت بھی نہیں پی سکتے
جس ہنر مندی سے ہم اشک نفس پیتے ہیں
سب یہیں چھوڑ کے جانا ہے خبر ہے لیکن
پھر یہ ہم کس لئے دنیا کی ہوس پیتے ہیں
جو تری یاد کے کیڑے ہیں بدن کے اندر
وہ مری روح کو کھاتے ہیں پلس پیتے ہیں
تب کہیں ہوتا ہے اک شہد کا چھتا تیار
ان گنت پھولوں کا خوں جب یہ مگس پیتے ہیں
آپ اک بوند بھی پی لیں تو غشی آ جائے
غم کے آنسو جو اسیران قفس پیتے ہیں
فیضؔ کی فکر کی بوتل میں ہے جو زہر سخن
دیکھنا ہے کی ابھی کتنے برس پیتے ہیں

غزل
بھنگ کھاتے ہیں نہ گانجا نہ چرس پیتے ہیں
فیض خلیل آبادی